میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہنے والے بہت سوں کو سلمان تاثیر بطور گورنر پنجاب تو قبول تھے لیکن بطور ایک مقتول قبول نہیں ہیں۔
میڈیا اور عوام جو مقتول سلمان تاثیر کی پنجاب حکومت سے نوک جھونک تو مزے لے لے کر سنتے سناتے تھے، اب ان کے قاتل کو قاتل کہتے ہوئے گھبرا رہے ہیں۔
اور پاکستان کے ’جمہوریت پسند‘ وکلاء جو ایک آمر کے خلاف ایسے اٹھے کہ اسے ملک سے بھگا کر ہی دم لیا، بغلیں بجاتے ہوئے ایک قاتل کو کمرۂ عدالت کے باہر ہار پہنا رہے ہیں۔ کیا قادری نے ایک جمہوری حکومت کے جمہوری سیاستدان کا قتل نہیں کیا؟
تو پھر لوگ چپ کیوں ہیں۔ یہ کیا اگر مگر ہے۔ سلمان تاثیر کا جرم کیا تھا۔ صرف یہ کہ انہوں نے ایک ایسی مظلوم عورت کے لیے آواز اٹھائی جس کے لیے کوئی بھی کچھ کرنے سے کترا رہا تھا۔ مقتول گورنر نے آخر ایسا کیا کیا۔ ضیا دور میں جو توہینِ رسالت کا قانون بنایا گیا تھا وہ بھی تو سیاستدانوں نے ہی بنایا تھا اور اس کے بعد اس میں جو ترامیم ہوتی رہی ہیں وہ بھی سیاستدان ہی کرتے رہے ہیں۔ تو آخر اگر گورنر نے اس پر تنقید کی بھی تھی تو انہوں نے کون سی حد پار کر لی تھی۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ اس قانون کا کس طرح غلط استعمال ہوتا رہا ہے۔ کبھی اسے جائیداد ہتھیانے کے لیے استعمال کیا گیا تو کبھی پیسے کے لین دین میں۔ کبھی بچوں کی لڑائی کے بعد پیغمبرِ اسلام کی شان میں گستاخی کا الزام لگایا گیا تو کبھی غیر مسلموں کو محلے سے نکالنے کے لیے۔
ایک اندازے کے مطابق انیس سو چھیاسی سے لے کر اب تک تقریباً سات سو سے زائد افراد پر توہینِ رسالت کے مقدمات بنائے گئے ہیں۔ ان میں سے کئی ایک کو نام نہاد مذہبی انتہا پسندوں نے سزا سنائے جانے سے پہلے ہی قتل کر دیا۔ کئی ایسے واقعات ہیں جہاں مشتعل ہجوم نے لوگوں کو یہ کہہ کر قتل کیا اور ان کے گھر جلائے کہ وہ توہینِ رسالت کے مرتکب ہیں۔ عدالتیں یہ سب کچھ دیکھتی رہیں اور معزز جج صاحبان جو ہر بات پر ’از خود نوٹس‘ لیتے رہتے ہیں چپ رہے اور قانون کے غلط استعمال کے خلاف کوئی بلند آواز ناراضگی کا اظہار نہیں کیا۔
بہت کم لوگ پاکستان کے قانون پی پی سی 153 اے (a) کا ذکر کرتے ہیں جس کے تحت مذہب، نسل، جائے پیدائش، شہریت، زبان یا اس طرح کی کسی چیز کی بنیاد پر نفرت پھیلاتے یا پھیلانے کی کوشش کرنے والوں کو پانچ سال تک سزا ہو سکتی ہے۔
آخر کتنے لوگوں کو اس زمرے میں سزا سنائی گئی ہے۔
میرے خیال میں توہینِ رسالت کے علاوہ شاید ہی کوئی ایسا مقدمہ ہو کہ جس میں پولیس تھانے میں محرر کی طرف سے لکھی گئی ایف آئی آر کو صحیفے کی طرح یا کم از کم اتنی آسانی سے تسلیم کر لیا جاتا ہو۔ اس لیے شاید سلمان تاثیر اور ان جیسے بہت سے دوسرے اس قانون میں ترمیم کا کہتے رہے ہیں۔ یہ ترمیم پولیس کے اس قسم کا مقدمہ درج کرنے کے بعد تحقیقات کرنے کے طریقۂ کار سے لے کر مقدمے کی آزادانہ کارروائی تک ممکن ہے۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ پنجاب کے گورنر کے قتل کے لیے بھی وہی عذر پیش کیا جا رہا ہے کہ جس کے خلاف وہ خود بات کرتے رہے ہیں۔ وہ یہ کہ توہینِ رسالت کے قانون کا لوگ غلط استعمال کرتے ہیں اور اپنے کوئی ’پرانے سکور‘ برابر کرنے کے لیے لوگوں پر جھوٹے مقدمات کرواتے ہیں۔
قادری ایک قاتل ہے اور اسے قاتل ہی کہنا چاہیے۔ اسے ہار پہنانے سے اس کا جرم تو کم نہیں ہوگا لیکن وہ لوگ شریکِ جرم ضرور سمجھے جانے چاہئیں جو ایسا کر رہے ہیں۔ ویسے پاکستان کا ہر قاتل یہ طریقہ ضرور استعمال کر سکتا ہے کیونکہ جب تک اس قانون کا استعمال اس طرح ہوتا رہے گا قاتلوں کو اس کی آڑ میں ’محفوظ پناہ‘ گاہ ملتی رہے گی۔
اب ذرا کوئی جا کے دیکھے تو کہ آسیہ بی بی کا کیا حال ہے۔
قادری نے سلمان تاثیر کے ساتھ اسے بھی تو مار دیا ہے۔
source : bbc.co.uk
No comments yet.