پاکستان کے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ان کی حکومت توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی ہے۔
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا کہ انھوں نے اتوار کے روز مولانا جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو ٹیلیفون کیا اور انھوں نے اس معاملے پر بات کی۔
انھوں نے کہا کہ ’میں نے پہلے بھی واضع طور پر کہا تھا اور پھر وزیر برائے مذہبی امور نے بھی وضاحت کی تھی کہ حکومت کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔‘
وزیر اعظم گیلانی نے مسلم لیگ سے تعلقات کے بارے میں کہا کہ حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کے قومی اصلاحات کے ایجنڈے پر مکمل طور پر کام کرنے کے لئے تیار ہیں۔
نواز شریف نے چار جنوری کو حکومت کو تین دن کا الٹی میٹم دیتے ہوئے قومی اصلاحات کے ایجنڈے پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا تھا تاہم بعد ازاں گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے بعد اس مہلت میں تین دن کی توسیع کر دی گئی تھی۔
وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اتوار کی شام کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے میاں نوازشریف کو ٹیلفون کرکے کہا کہ ’جہاں تک قومی ایجنڈا ہے، پورے ملک کے معاملات کے لئے ہے، پورے پاکستان اور تمام قیادت کی سوچ ہے، ہم اس کے بارے میں مثبت ہیں۔‘
وزیر اعظم نے کہا کہ میاں نواز شریف نے کہا کہ ’آپ کے مثبت جواب کے بعد اب یہ جواز پیدا نہیں ہوتا ہے کہ صوبے میں پیپلز پارٹی حکومت میں شامل نہ رہے۔‘
سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ مسلم لیگ کے قائد نے یہ بھی یقین دہانی کرائی کی وہ صوبے اور مرکز میں ان کی حمایت کریں گے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ انھوں نے مسلم لیگ ن کی جانب سے اصلاحات کے ایجنڈے پر عمل کے لئے دیے حکومت کو دیے جانے پنتالیس دن کے الٹی میٹم کا بھی ذکر کیا تو نوازشریف نے انھیں بتایا کہ ’یہ آپ کی نیت پر منحصر ہے۔‘
وزیر اعظم کے مطابق نواز شریف نے کہا کہ وہ قومی اصلاحات کے ایجنڈے پر عمل درآمد میں پیش رفت کا جائزہ لینے کے لئے مسلم لیگ ن کے سینیٹر اسحاق ڈار کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گی جو حکومت کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔
’میں میاں نواز شریف کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم ان کی جو تجاویز ہیں ان پر مکمل طور پر کام کرنے کے لئے تیار ہیں کیوں وہ ملک کے مفاد میں ہیں۔‘
مسلم لیگ (ن) کے ایک اور رہنما احسن اقبال نے پاکستانی ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اب ان کی جماعت کو امید ہے کہ پینتالیس دن کی مدت میں حکومت نیک نیتی سے اس ایجنڈے پر عمل کرے گی اور پیشرفت دکھائےگی۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب جبکہ وزیراعظم کی جانب سے مثبت جواب سامنے آیا ہے تو حکومت کو دی جانے والی تین دن کی مہلت کوئی اہمیت باقی نہیں اور نہ ہی اب پیپلز پارٹی سے پنجاب حکومت سے علیحدہ ہونے کو کہا جائے گا۔
خیال رہے کہ چار جنوری کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے حکومت کے سامنے نو نکاتی ایجنڈا پیش کیا تھا اور مثبت جواب نہ ملنے کی صورت میں پہلے مرحلے میں پنجاب میں پیپلز پارٹی کو حکومت سے الگ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
نواز شریف نے حکومت کو اس ایجنڈے پر عملدرآمد کے لیے پینتالیس دن کی مہلت دی تھی اور کہا تھا کہ بیس فروری تک مطالبات پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں نیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا۔
ان مطالبات میں پیٹرولیم کی مصنوعات میں اضافے کو واپس لینے کی بات بھی شامل تھی جس پر حکومت پہلے ہی عمل کر چکی ہے۔
اس کے علاوہ نواز شریف نے یہ بھی مطالبات کیے تھے کہ حکومت وزراء کی تعداد کم کرے، بدعنوان وفاقی وزراء کو فوری طور پر اُن کے عہدے سے ہٹائے اور اس کے علاوہ الیکشن کمیشن کی تنظیمِ نو بھی کی جائے۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ این آر او سمیت تمام عدالتی فیصلوں پر مکمل عملدرآمد کیا جائے اور ایسا احتساب کمیشن بنایا جائے جو حکومتی دباؤ سے آزاد ہو۔ انھوں نے سابق صدر پرویز مشرف کے احتساب اور سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو اور سابق وزیراعلی اکبر بُگٹی کے قتل کی شفاف تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا تھا۔
اس کے علاوہ سابق وزیرِاعظم نواز شریف نےچینی سکینڈل کے مجرموں کے خلاف کارروائی کرنے کے علاوہ پنجاب بینک، پاکستان سٹیل ملز میں ہونے والی اربوں روپے کی مبینہ بدعنوانی میں ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لانے کی بھی بات کی تھی۔
انھوں نے دفاعی بجٹ میں شفافیت لانے، معاف کیے گئے قرضے واپس لینے اور بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لیے اقدامات کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
source : bbc.co.uk
No comments yet.